اختلافِ رائے سے خوف کی ابتدا
ہم میں سے اکثر لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اختلافِ رائے کبھی کسی دشمنی کا اعلان نہیں ہوتا، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اختلاف کو ذاتی حملہ سمجھ لیا گیا ہے، جیسے سامنے والا اگر ہماری بات سے متفق نہیں تو وہ ہمیں نیچا دکھانا چاہتا ہے، ہمیں غلط ثابت کرنا چاہتا ہے یا شاید ہمیں مٹا ہی دینا چاہتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، اختلافِ رائے تو انسان کی فطری سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے، ہر ذہن ایک جیسا نہیں سوچ سکتا، ہر شخص کا تجربہ، مشاہدہ اور حالات مختلف ہوتے ہیں، لیکن ہم نے آہستہ آہستہ یہ سیکھ لیا ہے کہ اگر کوئی ہماری رائے سے ہٹ کر بات کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہمارا مخالف ہے، اور یہی سوچ ہمارے مکالمے کو بحث، بحث کو لڑائی اور لڑائی کو مستقل دشمنی میں بدل دیتی ہے۔
سوشل میڈیا اور فوری ردِعمل کا کلچر
سوشل میڈیا نے اس مسئلے کو اور بھی گہرا کر دیا ہے، جہاں ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا موقع تو ملا مگر سننے کا حوصلہ ختم ہوگیا، ہم پوسٹ پڑھتے ہی ردِعمل دینے کے عادی ہو گئے ہیں، سوچنے، سمجھنے اور رک کر جواب دینے کا صبر اب کم ہی لوگوں میں باقی رہ گیا ہے، کوئی ایک جملہ ہمارے نظریے سے مختلف ہو تو ہم پورا انسان اس جملے میں قید کر دیتے ہیں، اس کی نیت پر شک کرتے ہیں، اس کے کردار پر حملہ کرتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ ہم حق کے محافظ ہیں، حالانکہ اصل میں ہم صرف اپنی انا کو بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ اختلافِ رائے ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ شاید ہم مکمل طور پر درست نہیں، اور یہ احساس برداشت کرنا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
انا اور درست ثابت ہونے کی ضد
ہماری ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم بات کو سمجھنے کے بجائے جیتنے پر آ جاتے ہیں، گفتگو ہمارے لیے سیکھنے کا ذریعہ نہیں رہتی بلکہ مقابلہ بن جاتی ہے، جس میں ہار جیت ضروری ہو جاتی ہے، ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر بحث کا مقصد سامنے والے کو خاموش کرانا نہیں ہوتا، بلکہ کبھی کبھی مقصد صرف یہ جاننا ہوتا ہے کہ دوسرا کیا سوچتا ہے، مگر جب انا درمیان میں آ جائے تو اختلافِ رائے ہمیں ذاتی توہین لگنے لگتی ہے، اور ہم بات کو دلیل سے نہیں بلکہ لہجے، طنز اور سخت الفاظ سے جیتنے کی کوشش کرتے ہیں، جو آخرکار تعلقات کو نقصان پہنچاتا ہے۔
معاشرتی تقسیم اور گروہی سوچ
ہمارے معاشرے میں اب لوگ انسان کم اور گروہ زیادہ بن گئے ہیں، سیاسی، مذہبی، سماجی یا نظریاتی شناخت نے ہمیں ایک دوسرے سے اتنا دور کر دیا ہے کہ ہم سامنے والے کو فرد کے طور پر دیکھنے کے بجائے ایک لیبل کے طور پر دیکھتے ہیں، اور جب لیبل سامنے ہو تو اختلافِ رائے برداشت نہیں کیا جاتا، کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم نے ایک بات مان لی تو شاید ہمارا پورا گروہ کمزور ہو جائے گا، اسی خوف کی وجہ سے ہم بات سننے کے بجائے فوراً دفاعی پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں، اور یوں اختلاف دشمنی میں بدل جاتا ہے۔
گھریلو اور تعلیمی تربیت کا کردار
یہ مسئلہ صرف باہر کی دنیا کا نہیں بلکہ ہمارے گھروں اور تعلیمی ماحول سے بھی جڑا ہوا ہے، ہم نے بچپن سے یہی سیکھا کہ بڑوں سے اختلاف بدتمیزی ہے، سوال کرنا گستاخی ہے اور اپنی بات پر ڈٹے رہنا طاقت کی علامت ہے، اس تربیت نے ہمیں سکھایا کہ مان لینا کمزوری ہے اور منوانا کامیابی، جب یہی سوچ جوانی میں داخل ہوتی ہے تو اختلافِ رائے برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ ہمیں کبھی یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ اختلاف کے ساتھ بھی عزت قائم رکھی جا سکتی ہے۔
خاموشی کو امن سمجھنے کی غلط فہمی
ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں امن ہونا چاہیے، لیکن ہم امن کو خاموشی سے جوڑ دیتے ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ اگر کوئی سوال نہ کرے، اختلاف نہ کرے تو سب ٹھیک ہے، حالانکہ اصل امن وہ ہوتا ہے جہاں لوگ بلا خوف اپنی بات کہہ سکیں، جہاں اختلاف کے باوجود احترام باقی رہے، مگر ہم نے امن کی اس طرح تعریف کر لی ہے کہ جو خاموش ہے وہ اچھا ہے، اور جو بولتا ہے وہ مسئلہ پیدا کر رہا ہے، یہی سوچ اختلافِ رائے کو خطرہ بنا دیتی ہے۔
اختلافِ رائے اور تعلقات کا بگاڑ
سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ اختلافِ رائے نے ہمارے ذاتی تعلقات کو بھی متاثر کیا ہے، دوست دوست سے بات کرنا چھوڑ دیتا ہے، رشتے دار ایک دوسرے سے کترانے لگتے ہیں، صرف اس لیے کہ کسی بات پر سوچ مختلف ہو گئی، ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ رشتہ رائے سے بڑا ہوتا ہے، لیکن جب ہم رائے کو اپنے اوپر حاوی کر لیتے ہیں تو رشتہ پیچھے رہ جاتا ہے، اور پھر ہم تنہائی کا شکوہ بھی کرتے ہیں، حالانکہ ہم خود اس تنہائی کی بنیاد رکھ چکے ہوتے ہیں۔
کیا اختلافِ رائے کو دوبارہ مکالمہ بنایا جا سکتا ہے؟
سوال یہ نہیں کہ اختلافِ رائے ختم کیسے کیا جائے، کیونکہ اختلاف ختم کرنا ممکن بھی نہیں اور ضروری بھی نہیں، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اختلاف کو دوبارہ مکالمہ بنا سکتے ہیں، کیا ہم یہ سیکھ سکتے ہیں کہ سامنے والا اگر مختلف سوچتا ہے تو وہ دشمن نہیں بلکہ ایک مختلف تجربہ رکھنے والا انسان ہے، کیا ہم یہ مان سکتے ہیں کہ ہماری رائے مکمل سچ نہیں بلکہ سچ کا ایک حصہ ہو سکتی ہے، اگر ہم یہ ماننا سیکھ لیں تو شاید اختلافِ رائے ہمیں توڑنے کے بجائے جوڑنے لگے۔
برداشت کا مطلب ہار ماننا نہیں
برداشت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی بات چھوڑ دیں یا ہر بات مان لیں، برداشت کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ سامنے والے کو بولنے کا حق دیں، اس کی بات سنیں، اور پھر اگر اختلاف باقی رہے تو بھی احترام قائم رکھیں، یہ رویہ کمزور نہیں بلکہ مضبوط ذہن کی علامت ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے برداشت کو کمزوری اور سختی کو طاقت سمجھ لیا ہے، اور یہی غلط فہمی ہمیں ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔
اختتامیہ سوچ
اگر ہم واقعی ایک بہتر معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ اختلافِ رائے دشمنی نہیں، بلکہ فکری تنوع کی علامت ہے، ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہر بات پر اتفاق ضروری نہیں، لیکن ہر اختلاف پر نفرت بھی ضروری نہیں، جب ہم یہ فرق سمجھ لیں گے تو شاید گفتگو دوبارہ زندہ ہو جائے، تعلقات دوبارہ سانس لینے لگیں، اور ہم اختلاف کے باوجود انسان رہ سکیں، دشمن نہیں۔




























2 Comments
Good expression of ideas.
Thank you. Please share with your loved ones.