کبھی غور کریں تو لگتا ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں بات کرنے سے زیادہ ردعمل دیا جاتا ہے، سننے سے زیادہ بولنے کو اہم سمجھا جاتا ہے، اور اختلاف رائے کو فوراً دشمنی بنا لیا جاتا ہے۔ برداشت جیسے لفظ اب کتابوں، تقریروں اور نصیحتوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ عملی زندگی میں اس کی جگہ غصے، جلد بازی اور ضد نے لے لی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ معاشرے میں مسائل کیوں بڑھ رہے ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ برداشت کہاں کھو گئی؟
روزمرہ زندگی میں برداشت کی کمی
سڑک پر نکلیں، بازار جائیں، دفتر کا ماحول دیکھیں یا گھریلو محفلوں پر نظر ڈالیں، ہر جگہ ایک ہی کیفیت نظر آتی ہے۔ لوگ ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ چھوٹا سا اختلاف بڑی تلخی میں بدل جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر شخص اندر سے پہلے ہی بھرا ہوا ہے اور بس کسی بہانے کی تلاش میں ہے کہ غصہ باہر نکال سکے۔ یہ رویہ اچانک پیدا نہیں ہوا، بلکہ آہستہ آہستہ ہماری زندگی کا حصہ بنتا چلا گیا۔
اختلاف رائے دشمن کیوں بن جاتا ہے
اختلاف رائے کبھی معاشرے کی خوبصورتی سمجھا جاتا تھا۔ مختلف سوچیں، مختلف نظریات اور مختلف تجربات مل کر زندگی کو متوازن بناتے تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی آپ سے مختلف رائے رکھتا ہے تو اسے فوراً غلط، جاہل یا دشمن سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ اختلاف کا مطلب انکار نہیں ہوتا، بلکہ سیکھنے کا ایک موقع بھی ہو سکتا ہے۔
گھروں سے شروع ہونے والی بے صبری
عدم برداشت کی جڑیں اکثر گھروں میں نظر آتی ہیں۔ جب بچوں کو بولنے کی اجازت نہ ہو، سوال کرنے پر ڈانٹ پڑے، اور غلطی پر بات سمجھانے کے بجائے سخت ردعمل کیا جائے تو وہی رویہ بچے بڑے ہو کر معاشرے میں دہراتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نئی نسل برداشت کرے، لیکن خود برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یہی تضاد آگے چل کر اجتماعی رویہ بن جاتا ہے۔
سوشل میڈیا اور فوری ردعمل
سوشل میڈیا نے اظہار کو آسان بنایا ہے، مگر برداشت کو کمزور کر دیا ہے۔ چند سطروں کا پیغام، آدھی بات، یا سیاق و سباق کے بغیر لکھی گئی رائے فوراً آگ بھڑکا دیتی ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر ردعمل دیکھاتے ہیں۔ نہ سامنے والا نظر آتا ہے، نہ اس کے جذبات۔ بس ایک اسکرین ہوتی ہے اور اس کے پیچھے چھپا غصہ۔ یوں برداشت کی کمی کو ایک نیا میدان مل گیا ہے۔
جلد بازی کا کلچر
ہم جلدی میں ہیں۔ فیصلے بھی جلدی، رائے بھی جلدی، اور غصہ بھی جلدی۔ کسی بات کو سمجھنے، سوچنے یا تحمل سے سننے کا وقت جیسے کسی کے پاس نہیں۔ یہ جلد بازی صرف ٹریفک یا کام تک محدود نہیں رہی، بلکہ سوچ اور رویے کا حصہ بن چکی ہے۔ برداشت وقت مانگتی ہے، اور ہم وقت دینے کو تیار نہیں۔
مذہب، سیاست اور برداشت کی کمی
مذہب اور سیاست جیسے حساس موضوعات پر برداشت کی کمی سب سے زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔ ہر شخص خود کو حق پر سمجھتا ہے اور دوسرے کو مکمل طور پر غلط۔ بات دلیل سے شروع ہو کر الزام اور بدکلامی تک پہنچ جاتا ہے۔ حالانکہ یہ وہ میدان ہیں جہاں سب سے زیادہ سمجھ بوجھ اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر افسوس، یہاں برداشت سب سے پہلے ختم ہو جاتی ہے۔
خاموش لوگ اور شور مچانے والے لوگ
ایک عجیب تضاد یہ بھی ہے کہ شور مچانے والے زیادہ سنے جاتے ہیں اور خاموشی سے بات سمجھانے والے نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ برداشت کا تقاضا ہے کہ ہم خاموش باتوں کو بھی سنیں، اشاروں کو بھی سمجھیں، اور ہر آواز کو چیخ سمجھ کر رد نہ کریں۔ مگر ہمارا معاشرہ شور کا عادی ہو چکا ہے، اور شور میں تحمل دب جاتا ہے۔
تعلقات میں بڑھتی ہوئی تلخی
رشتوں میں بھی برداشت کم ہوتی جا رہی ہے۔ معمولی باتیں دل میں گرہ بنا لیتی ہیں۔ بات چیت کی جگہ شکایت، اور سمجھنے کی جگہ الزام آ جاتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ تعلقات نبھانے کے لیے صرف محبت نہیں، برداشت بھی ضروری ہوتی ہے۔ جب برداشت ختم ہو جائے تو رشتے بھی بوجھ لگنے لگتے ہیں۔
خود کو درست سمجھنے کی ضد
عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص خود کو درست سمجھتا ہے۔ اپنی رائے، اپنا تجربہ اور اپنا نقطہ نظر سب سے بہتر لگتا ہے۔ ہم یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ شاید دوسرا بھی کسی حد تک درست ہو سکتا ہے۔ یہ ضد ہمیں سننے سے روکتی ہے اور برداشت کی راہ میں دیوار بن جاتی ہے۔
معاشرتی دباؤ اور اندرونی غصہ
مہنگائی، بے یقینی، مقابلہ اور عدم تحفظ نے لوگوں کے اندر غصہ بھر دیا ہے۔ جب زندگی خود سخت ہو جائے تو انسان چھوٹی باتوں پر بھی بے قابو ہو جاتا ہے۔ یہ اندرونی دباؤ برداشت کو کمزور کر دیتا ہے۔ ہم ایک دوسرے پر غصہ نکالتے ہیں، حالانکہ اصل مسئلہ کہیں اور ہوتا ہے۔
برداشت صرف اخلاق نہیں
برداشت کو اکثر صرف اخلاقی نصیحت سمجھ لیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ایک عملی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر نہ گھر چل سکتا ہے، نہ دفتر، نہ معاشرہ۔ جہاں برداشت ختم ہو جائے وہاں صرف ٹکراؤ رہ جاتا ہے۔ یہ ٹکراؤ وقتی طور پر شاید دل کا بوجھ ہلکا کر دے، مگر طویل مدت میں مسائل کو بڑھا دیتا ہے۔
سیکھنے کا عمل اور تحمل
برداشت سیکھنے سے آتی ہے۔ یہ کوئی پیدائشی صلاحیت نہیں جو کچھ لوگوں میں ہو اور کچھ میں نہ ہو۔ جب ہم سننا سیکھتے ہیں، سوال کرنا سیکھتے ہیں اور اختلاف کو قبول کرنا سیکھتے ہیں تو برداشت خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم سیکھنے کے عمل کو ہی غیر ضروری سمجھنے لگے ہیں۔
خود سے شروع کرنے کی ضرورت
ہم اکثر کہتے ہیں کہ معاشرہ خراب ہو گیا ہے، لوگ بدل گئے ہیں، برداشت ختم ہو گئی ہے۔ مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم خود کہاں کھڑے ہیں۔ کیا ہم خود سننے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم خود اختلاف کو برداشت کر سکتے ہیں؟ تبدیلی ہمیشہ خود سے شروع ہوتی ہے، اور برداشت بھی اس سے باہرنہیں۔
چھوٹے قدم، بڑا فرق
برداشت واپس لانے کے لیے بڑے نعروں کی ضرورت نہیں۔ چھوٹے قدم کافی ہیں۔ بات مکمل طور پر سن لینا، فوراً ردعمل نہ دیکھانا، اور سامنے والے کو انسان سمجھنا۔ یہ چھوٹی عادتیں مل کر بڑا فرق پیدا کرتی ہیں۔ شاید یہی وہ راستہ ہے جس سے ہم دوبارہ ایک متوازن معاشرہ بنا سکیں۔
آخر میں
برداشت کہاں کھو گئی؟ شاید یہ کہیں گئی نہیں، بس ہمارے روزمرہ رویوں کے شور میں دب گئی ہے۔ اگر ہم تھوڑا سا رک جائیں، سننا سیکھ لیں اور خود کو ہر وقت درست ثابت کرنے کی ضد چھوڑ دیں تو برداشت دوبارہ زندہ ہو سکتی ہے۔ یہ آسان نہیں، مگر ناممکن بھی نہیں۔ اور شاید یہی وہ سبق ہے جس کی آج کے معاشرے کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔




























2 Comments
Good words composed well.
Thank you. Please keep visiting.